Peer-e-Kamil Novel, Peer-e-Kamil Novel by Umera Ahmed, Umera Ahmed Novels, Umera Ahmed Urdu Novels, Umera Ahmed Free Urdu Novels, Free Urdu Novels, Urdu Novels by Umera Ahmed, Urdu Novels PDF, Urdu Novels PDF Download, Download Urdu Novels in PDF

Peer e Kamil Novel Episode 2 (ﭘﯿﺮ ﮐﺎﻣﻞ ﷺ)

Novel Name:

Peer E Kamil

Writer Name:

Umera Ahmad

Status:

Episode Wise

Category:

File Size:

Download Option:

Download This Novel in PDF

👇👇 Follow Us For More Updates 👇👇

WhatsApp Channel Follow


Telegram Group Follow
5/5 – (7 votes)

  📚 ناول: پیرِ کامل ﷺ
  ✍️ رائیٹر: عمیرہ احمد
  🗃️ ٹوٹل اقساط: 50
  📄 قسط نمبر: 02

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اب میری بات چھوڑو، اپنی بات کرو ، تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ؟ امامہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا
رہنے دو ۔۔۔۔۔
کیوں رہنے دوں ۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ نا
تمہیں برا لگے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا
امامہ نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا ۔ مجھے کیوں برا لگے گا
جویریہ خاموش رہی ۔
ایسی کیا بات ہے جو مجھے بری لگے گی ؟ امامہ نے اپنا سوال دہرایا
بری لگے گی ۔ جویریہ نے مدھم آواز میں کہا
آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کا میری زندگی سے کیا تعلق ہے کہ میں اس پر برا مانوں گی ۔ امامہ نے اس بار قدرے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا ۔ کہیں تمہاری یہ خواہش تو نہیں ہے کہ میں ڈاکٹر نہ بنوں ؟ امامہ کو اچانک یاد آیا
جویریہ ہنس دی ۔ نہیں ۔۔۔۔۔ زندگی صرف ایک ڈاکٹر بن جانے سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ اس نے کچھ فلسفیانہ انداز میں کہا ۔
پہیلیاں بجھوانا چھوڑو اور مجھے بتاؤ ۔ امامہ نے کہا
میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں برا نہیں مانوں گی ۔ امامہ نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
وعدہ کرنے کے باوجود میری بات سننے پر تم بری طرح ناراض ہوگئی ۔ بہتر ہے ہم کچھ اور بات کریں ۔ جویریہ نے کہا ۔
اچھا میں اندازہ لگاتی ہوں ، تمہاری خواہش کا تعلق میرے لئے کسی بہت اہم چیز سے ہے ۔۔۔۔ رائٹ ۔۔۔۔؟ امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔ جویریہ نے سر ہلا دیا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے لیے کون سی چیز اتنی اہم ہوسکتی ہے کہ میں ۔۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے رک گئی
مگر جب تک میں تمہاری خواہش کی نوعیت نہیں جان لیتی ، میں کچھ بھی اندازہ نہیں کرسکتی ۔ بتا دو جویریہ ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔ اب تو مجھے بہت ہی زیادہ تجسس ہورہا ہے۔ اس نے منت کی
وہ کچھ دیرسوچتی رہی ۔ امامہ غور سے اسکا چہرہ دیکھتی رہی ، پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جویریہ نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا
میرے پروفیشن کے علاوہ میری زندگی میں فی الحال جن چیزوں کی اہمیت ہے وہ صرف ایک ہی ہے اور اگر تم اس کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتی ہو تو کہو میں برا نہیں مانوں گی ۔ امامہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا
جویریہ نے قدرے چونک کر اسے دیکھا ، وہ اپنے ہاتھ میں موجود ایک انگوٹھی کو دیکھ رہی تھی ۔
جویریہ مسکرائی
میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جویرہ نے اسے اپنی خواہش بتائی
امامہ کا چہرہ یک دم سفید پڑگیا ۔ وہ شاکڈ تھی یا حیرت زدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ اندازہ نہیں کرسکی ۔ مگر اس کے چہرے کے تاثرات یہ ضرور بتا رہے تھے کہ جویریہ کے منہ سے نکلنے والے جملے اس کے ہر اندازے کے برعکس تھے
میں نے تم سے کہا تھا نا تم برا مانوگی ۔ جویرہ نے جیسے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی مگر امامہ کچھ کہے بغیر اسے دیکتھی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☼☼☼۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


معیز حلق کے بل چلاتا ہوا درد سے دوہرا ہوگیا، اس کے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ پر تھے۔ اس کے سامنے کھڑے بارہ سالہ لڑکے نے اپنی پھٹی ہوئی ٹی شرٹ کی آستین سے اپنی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کیا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹینس ریکٹ ایک بار پھر پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر دے مارا ۔ معیز کے حلق سے ایک بار پھر چیخ نکلی اور وہ اس بارسیدھا ہوگیا۔ کچھ بے یقینی کے عالم میں اس نے خود سے دو سال چھوٹے بھائی کو دیکھا جو اب بغیر کسی لحاظ اور مروت کے اسے اس ریکٹ سے پیٹ رہا تھا جو معیز کچھ دیر پہلے اسے پیٹنے کے لیے لے آیا تھا۔
اس ہفتے میں ان دونوں کے درمیاں ہونے والا یہ تیسرا جھگڑا تھا اور تینوں بار جھگڑا شروع کرنے والا اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ معیز اور اسکے تعلقات ہمیشہ ہی ناخوشگوار رہے تھے
انکا جھگڑا بچپن سے لے کر اب سے کچھ پہلے تک صرف زبانی کلامی باتوں اور دھمکیوں تک ہی محدود تھا ، مگر اب کچھ عرصہ سے وہ دونوں ہاتھا پائی پر بھی اتر آئے تھے ۔
آج بھی یہی ہوا تھا وہ دونوں اسکول سے اکٹھے واپس آرہے تھے اور گاڑی سے اترتے ہوئے اس کے چھوٹے بھائی نے بڑی درشتی کے ساتھ پیچھے ڈگی سے اس وقت اپنا بیگ کھینچ کر نکالا جب معیز اپنا بیگ نکال رہا تھا ۔ بیگ کھینچتے ہوئے معیز کے ہاتھ کو بری طرح رگڑ آئی ۔ میعز بری طرح تلملایا ۔ تم اندھے ہوچکے ہو ؟
وہ اطمینان سے اپنا بیگ اٹھائے بے نیازی سے اندر جا رہا تھا ۔ معیز کے چلانے پر اس نے پلٹ کر اس کو دیکھا اور لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا ۔ معیز کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ۔ وہ تیز تیز قدموں سے اس کے پیچھے اندر چلا آیا ۔
اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو میں تمہارا ہاتھ توڑ دوں گا ۔ اس کے قریب پہنچتے ہوئے معیز ایک بار پھر دھاڑا ۔ اس نے بیگ کندھے سے اتار کر نیچے رکھ دیا اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا ۔ نکالوں گا ۔۔۔۔۔ تم کیا کرو گے ۔۔۔۔۔ ؟ ہاتھ توڑدو گے ؟ اتنی ہمت ہے ؟
یہ میں تمہیں اس وقت بتاؤں گا جب تم دوبارہ یہ حرکت کرو گے ۔ معیزاپنے کمرے کی طرف بڑھا مگر اس کے بھائی نے پوری قوت سے اس کا بیگ کھینچتے ہوئے اسے رکنے پر مجبور کردیا ۔
نہیں تم مجھے ابھی بتاؤ ۔ اس نے معیز کا بیگ اٹھا کر دور پھینک دیا ۔ معیز کا چہرہ سرخ ہوگیا اس نے زمین پر پڑا ہوا اپنے بھائی کا بیگ اٹھا کر دور اچھال دیا ۔ ایک لمحے کا انتظار کیے بغیر اس کے بھائی نے پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر ٹھوکر ماری ۔ جوابا” اس نے پوری قوت سے چھوٹے بھائی کے منہ پر مکا مارا جو اسکی ناک پر لگا ۔ اگلے ہی لمحے اسکی ناک سے خون ٹپکنے لگا ۔ اتنے شدید حملے کے باوجود اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلی ۔ اس نے معیز کی ٹائی کھینچتے ہوئے اسکا گلا دبانے کی کوشش کی ۔ معیز نے جوابا” اسکی شرٹ کو کالرز سے کھینچا۔ اسے شرٹ کے پھٹنے کی آواز آئی۔ اس نے پوری قوت سے اپنے چھوٹے بھائی کے پیٹ میں مکا مارا اس کے بھائی کے ہاتھ سے اسکی ٹائی نکل گئی ۔
ٹھہرو میں تمہیں اب تمہارا ہاتھ توڑ کردکھاتا ہوں ۔ معیز نے اسے گالیاں دیتے ہوئے لاؤنج کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ایک ریکٹ کو اٹھالیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو مارنے کی کوشش کی ۔ مگر اگلے ہی لمحے ریکٹ اسکے بھائی کے ہاتھ میں تھا ۔ اس نے پوری وقت سے گھما کراتنی برق رفتاری کے ساتھ اس ریکٹ کو معیز کے پیٹ میں مارا کہ وہ سنبھل یا خود کو بچا بھی نہ سکا ۔ اس نے یکے بعد دیگرے معیز کی کمر اور ٹانگ پر ریکٹ برسا دیے ۔
اندر سے ان دونوں کا بڑا بھائی اشتعال کے عالم میں لاؤنج میں آگیا ۔
کیا تکلیف ہے تم دونوں کو ۔۔۔۔۔ گھر میں آتے ہی ہنگامہ شروع کردیتے ہو ۔ اس کو دیکھتے ہی چھوٹے بھائی نے اٹھا ہوا ریکٹ نیچے کرلیا ۔
اور تم ۔۔۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی اپنے سے بڑے بھائی کو مارتے ہو۔ اس کی نظر اب اس کے ہاتھ میں پکڑے ریکٹ پر گئی ۔
نہیں آتی ۔ اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہوئے ریکٹ ایک طرف اچھال دیا اور بڑی بے خوفی سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا اپنا بیگ اٹھا کر اندر جانے لگا ۔ معیز نے بلند آواز میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا
تم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ وہ ابھی تک اپنی ٹانگ سہلا رہا تھا
ہاں کیوں نہیں ۔ ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ سیڑھیوں کے آخری سرے پر رک کر اس نے معیز سے کہا ۔ اگلی بار تم بیٹ لے کر آنا ۔۔۔۔۔ ٹینس ریکٹ سے کچھ مزہ نہیں آیا ۔۔۔۔۔ تمہاری کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی
معیز کو اشتعال آگیا ۔ تم اپنی ناک سنبھالو ۔۔۔۔۔ وہ یقینا” ٹوٹ گئی ہے ۔ معیز غصے کے عالم میں سیڑھیوں کو دیکھتا رہا ۔ جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا ۔٭٭٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(جاری ہے)

👇👇 Alternative Download Links 👇👇

Latest Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *