Muhabbat Ek Bad Dua by Filzah Arshad – FreeUrduNovels.com
Muhabbat Ek Bad Dua
Filzah Arshad
Complete
Afsana
Nill
NO
Download This Novel in PDF
👇👇 Follow Us For More Updates 👇👇
وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔۔ اسے معلوم تھا اسے جو بیماری ہے اس سے زندگی کے بچنے کی کوئی راہ نہیں تھی ۔۔
ہاسپیٹل کے بیڈ میں لیٹی وہ اپنی سانسیں گن رہی تھی جب دروازہ دھکیل کر کوئی داخل ہوا۔۔
آنے والے شخص کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی۔۔ پانچ سال بعد وہ اس کو دیکھ رہی تھی۔۔
سامنے والا شخص بید پر لیٹی لاغر سے وجود کو دیکھ کر دکھ افسوس اور پچھتاوے میں گھر گیا۔۔۔
“کیسی ہو؟”
ایک خاموشی کے وقفے کے بعد اس شخص نے یہ الفاظ ادا کئیے۔۔۔
لاغر سے وجود کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔۔
“کہا تھا نہ مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ میں مر جاؤنگی۔۔ دیکھو میں مر رہی ہوں۔۔”
اس کے لہجے سے گزرہ سالوں کا کرب واضح تھا۔۔
وہ شخص ایک بار پھر شرمندگی اور پچھتاوے کی لہر میں چلاگیا۔۔۔
“تم۔۔ تم مجھے معاف کردو ہانی۔۔ میں شرمندہ ہوں مجھے اس وقت صرف اپنے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔۔ لیکن میں سمجھ گیا ہوں میری محبت صرف تم تھی۔۔۔”
بے بسی سے جھکے سر کے ساتھ اس نے اس کا کمزور سا ہاتھ پکڑ کر اس پر گزری پانچ سالا اذیت کا اذالہ صرف دو لفظوں سے کرنا چاہا تھا۔۔۔
اس لڑکی نے سرعت سے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالا۔۔۔
“میں نے معاف کیا میں نے معاف کیا اپنی ہر رات کے آنسو تمام دن کی اذیت تمہیں معاف کرتی ہوں شیرازی۔۔ مگر میں اپنی محبت کے ساتھ کی گئی نا انصافی تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔۔
آنکھوں سے آنسو رواں تھا اور وہ لڑکی سامنے والے شخص کی دیدہ دلیری پر حیران تھی۔۔۔ کیسا شخص تھا اس کی ذندگی برباد کرنے کے بعد وہ اس سے معافی طلب کر رہا تھا۔۔۔ جب وہ موت کے سامنے کھڑی تھی تو وہ اپنا پچھتاوا ظاہر کر رہا تھا۔۔۔
“میں نے اپنی ذندگی میں تمہیں کوئی بد دعا نہیں دی جب تم میری محبت کو ٹھکرا کر کسی غیر کے در پر جا کر کھڑے تھے تب بھی میں نے تمہاری منتیں کی۔۔۔
پھر تم مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے جب کہ تم جانتے تھے میرا اس دنیا میں تمہارے علاوہ کوئی نہیں تھا۔۔۔
مگر میں آج تمہیں بد دعا دیتی ہوں شیرازی کہ تمہیں آج مجھے سے عشق ہوجائے جب میں اس دنیا میں نہ رہوں تو تم مجھے دیکھنے کے لئیے تڑپو تمہارا دن بھی اندھیرے میں گزرے اور راتوں کو بھی نیند نہ آئے تم سکون کے لئیے ترسو فیصل شیرازی تم ہانیہ شیرازی کو تلاش کرنے کی جتن کرو اور میں تمہیں کہیں نہ ملوں۔۔۔۔”
” تم۔۔۔تم۔۔۔ اس کی سانس اکھڑ رہی تھی بولنے میں دقّت پیش آرہی تھی۔۔۔
وہ جو بت بنا تھا فوراً اس کے پاس آیا۔۔۔
“ہانیہ۔۔ ہانی۔۔۔ آنکھیں کھولو۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔۔ “
وہ دیوانہ وار چیخا تھا۔۔۔
اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا ہانیہ اپنے نام کے ساتھ اس کا نام جوڑے ہی اس دنیا سے جا چکی تھی اور شیرازی اپنا ٹوٹا ہوا وجود لے کر اپنی سزا کاٹنے کے لئیے اس دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا۔۔۔
آج دس سال گزرنے کے بعد بھی وہ ہانیہ کہ قبر کے آگے اپنے دن گزار دیتا۔۔
معافی مانگتا سکون طلب کرتا مگر اسے سکون کہیں نہیں مل رہا تھا۔۔۔
ہانیہ کی بد دعا لگ چکی تھی وہ اپنی بیوی سے عشق کر بیٹھا تھا مگر اس کی موت کے بعد۔۔۔
اور یہ تکلیف یہ اذیت تا عمر رہنی تھی۔۔
Leave a Reply